صدر، وزیراعظم کی مولانا سے ملاقاتیں، نواز کی مشاورت، اچکزئی کے انکشافات
اسلام آباد (تجزیاتی جائزہ) صدر، وزیراعظم کی مولانا سے ملاقاتیں، نواز کی مشاورت، اچکزئی کے انکشافات، کیا نئے سیاسی منظر کی
تشکیل کا اہتمام ہے؟
قیدی نمبر 804 نے مذاکرات کی باگ ڈور اچکزئی کو تھما دی، پی ٹی آئی کے قائدین کی افسردگی اور مایوسی فطری بات، ن لیگ میں بھی مذاکرات کے مخالفین موجود ہیں، وزیراعظم شہباز شریف سے پی ٹی آئی کے سرکردہ رہنمائوں اور مسلم لیگی راہنما رانا ثناء اللہ سے اپنی ملاقات کے انکشاف اور اس حوالے سے محمود خان اچکزئی کا جو موقف سامنے آرہا ہے۔
پھر اس سے قبل صدر اور وزیراعظم سے مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ پر ہونے والی ملاقاتوں کے بعد اب مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف کی جانب سے پارٹی رہنمائوں اور حکومت کو مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی سے مذکرات جاری رکھنے کا مشورہ، ان ساری سرگرمیوں کے تناظر میں سیاسی اور خوش فہم حلقے جن میں کچھ تجزیہ کار اور مبصرین بھی شامل ہیں ملکی سیاست کی مایوس کن صورتحال کو ایک خوشگوار منظر کی تشکیل اور آمد سے تعبیر کر رہے ہیں۔
گو کہ یہ امید اور توقع بادی النظر میں اس لئے بھی قبل ازوقت ہے کہ گزشتہ کئی سال کے الجھے اور نظم وضبط کے ساتھ الجھائے گئے آخری حد تک بگڑے ہوئے حالات و معاملات کو سنوارنے اور سنبھالنے میں بھی خاصا وقت درکار ہوگا اور یہ بھی ضروری نہیں کہ خوش فہم سیاسی حلقوں کی مفاہمت کا یہ معاملہ جس کا ابھی باقاعدہ اور باضابطہ آغاز بھی نہیں ہوا وہ کسی کامیابی کی پیشرفت میں مطلوبہ مسافت بھی طے کرتا ہے یا پھر تھک ہار کر ہی راستے میں بیٹھ جاتا ہے یا بٹھا دیا جاتا ہے۔
کیونکہ اطلاعات کے مطابق مذاکراتی کمیٹی کی تشکیل کا مرحلہ شروع ہوگیا ہے گوکہ اس کا ابھی مطلوبہ انداز میں اعلان بھی نہیں ہوا لیکن پاکستان تحریک انصاف سے مذاکرات کے مخالفین سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ جس کی اعلانیہ ابتدا وزارت دفاع کے منصب پر فائز اہم مسلم لیگی راہنما خواجہ محمد آصف نے کی ہے۔
انہوں نے غیر مبہم لفظوں اور قطعیت کے لہجے میں خود کو مجوزہ کمیٹی سے نہ صرف الگ رکھا، لاتعلقی کا اظہار کیا اور یہ بھی کہا کہ میں کبھی بھی پی ٹی آئی سے مذاکرات کے حق میں نہیں رہا ہوں اور بلخصوص 9 مئی کے سانحے کے بعد تو بالکل بھی نہیں۔ اس پہلو کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ اس حوالے سے خواجہ آصف بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوں۔