سپریم کورٹ کے 8 ججوں کے ’’آرڈر‘‘ کے بعد چیف جسٹس کے سوالات
اسلام آباد: معتبر ذرائع کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک انتظامی حکم نامہ جاری کرتے ہوئے عدالت کے’’مخصوص نشستوں سے متعلق مقدمہ‘‘ کے 2 جولائی کے مختصر فیصلہ سے متعلق ابہام کی درستگی کیلئے دائر کی گئی الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی کی متفرق درخواستوں کی14 ستمبر کو،کی جانب والی ان چیمبر سماعت سے متعلق آٹھ اکثریتی ججوں کی وضاحت پرمبنی حکم نامہ (آرڈر) کے اجراء سے متعلق ڈپٹی رجسٹرار (جوڈیشل) کے (اسی روز ہی قلمبند کئے جانے والے) نوٹ کی روشنی میں9سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ (اول) الیکشن کمیشن اورپاکستان تحریک انصاف نے عدالت کے 12 جولائی کے مختصر فیصلہ سے متعلق ابہام کی درستگی کیلئے وضاحت کی درخواستیں کب دائر کی تھیں،(دوئم) پی ٹی آئی اور الیکشن کمیشن کی یہ متفرق درخواستیں سپریم کورٹ (پریکٹس پروسیجر) ایکٹ 2023کے تحت قائم تین رکنی کمیٹی کو غور کیلئے کیوں نہیں بھیجی گئیں، (سوئم) متفرق درخواستیں کاز لسٹ پر شائع کئے بغیر ہی سماعت کیلئے کیسے مقرر ہوگئیں؟ (چہارم )کیا رجسٹرار آفس نے متعلقہ فریقین مقدمہ اور اٹارنی جنرل کو اس حوالے سے نوٹس جاری کیے تھے؟(پنجم ) کس کمرہ عدالت یا کس جج کے چیمبر میں ان درخواستوں کی سماعت ہوئی تھی؟ (ششم ) متفر ق درخواستوں کی سماعت کے بعد انکے فیصلہ کے اجراء کیلئے کاز لسٹ کیوں جاری نہیں کی گئی تھی؟(ہفتم ) حکم نامہ سنانے کیلئے درخواستوں کو کسی کمرہ عدالت میں مقرر کیوں نہیں کیا گیا تھا؟(ہشتم )فیصلے کی اصلی فائل اوران چیمبر سماعت کا حکم نامہ رجسٹرار آفس میں جمع کروائے بغیر ہی اس حکم نامہ کو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پرکیسے اپ لوڈ کروا دیا گیا؟(نہم )حکم نامہ کو سپریم کورٹ کی آفیشل ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کا حکم کس؟نے دیاتھا؟یاد رہے کہ عدالت کے 13رکنی فل کورٹ بینچ کے رکن 8ججوں جسٹس منصور علی شاہ ،جسٹس منیب اختر ،جسٹس محمد علی مظہر ،جسٹس عائشہ ملک ،جسٹس اطہر من اللہ ،جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس عرفان سعادت خان نے 12جولائی 2024 کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں(پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ) اراکین کی بنیاد پر تخیلق پانے والی خواتین اور اقلیتوں کیلئے مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو دینے کی بجائے دیگر پارلیمانی پارٹیوں کو الاٹ کرنے سے متعلق الیکشن کمیشن /پشاو رہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف دائرکی گئی سنی اتحاد کونسل کی اپیلوںکی سماعت مکمل ہونے کے بعد جاری کئے گئے اپنے اکثریتی (مختصر) فیصلے میں الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کے فیصلوں کو کالعدم کرتے ہوئے قرار دیاتھا کہ پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت تھی اور ہے ،انتخابی نشان نہ ہونے یا نہ دینے سے کسی سیاسی جماعت کی قانونی حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے ،آٹھ ججوں کے اکثر یتی فیصلے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے آزاد قرار دینے والے 80 اراکین قومی اسمبلی میں سے 39اراکین قومی اسمبلی کو پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار جبکہ باقی رہ جانے والے 41 اراکین قومی اسمبلی کو آزاد اراکین قرار دیتے ہوئے کہاتھا کہ عدالت کے اس فیصلے کے اجرا ء کے 15روز کے اندراندر آزاد اراکین بھی الیکشن کمیشن میں اپنی سیاسی جماعت سے تعلق کا حلف نامہ جمع کرائیں اور متعلقہ جماعت کی تصدیق کی صورت میں مذکورہ اراکین قومی اسمبلی بھی اسی جماعت کے امیدوار تصور ہونگے، عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کیلئے اہل قرار دیتے ہوئے اسے الیکشن کمیشن میں خواتین اور اقلیتوں امیدواروں کی ترجیحی لسٹ جمع کرانے کی ہدایت بھی کی اور قرار دیاتھا کہ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کی لسٹ کے مطابق ایوان میں موجود نمائندگی کے تناسب سے پی ٹی آئی کو اقلیتوں اور خواتین کی مخصوص نشستیں الاٹ کرے، تاہم میں اس فیصلے کے اجراء کے بعد متعلق متعدد سوالات اٹھنے پر الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی نے اپنے اپنے تحفظات پر مبنی سوالات کی تشریح کیلئے سپریم کورٹ میں دو الگ الگ متفرق درخواستیں دائر کی تھیں اور14 ستمبر کو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر ان درخواستوں کی ان چیمبر سماعت سے متعلق آٹھ اکثریتی ججوں کی وضاحت پرمبنی حکم نامہ جاری کرتے ہوئے واضح کیا گیاکہ عدالت کے مختصر اکثریتی فیصلے کی روشنی میں پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلیز پی ٹی آئی کے کامیاب امیدوار ہیں، عدالت کے 12 جولائی کے فیصلے میں کوئی ابہام نہیں ہے بلکہ مختصر فیصلہ بہت واضح ہے ،جسے الیکشن کمیشن نے غیر ضروری طور پر پیچیدہ بنادیا ہے، عدالت نے قرار دیا تھا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے کنفیوژن پیدا کرنے کی کوششوں کوسخت الفاظ میں مسترد کیا جاتا ہے ۔