“آوارہ کتوں کا قتل مسئلے کا حل نہیں”
تحریر:صادق حسین
(ڈبلیو ایچ او)عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال ایک لاکھ سے زائد افراد کو کتوں کے کاٹنے کے باعث ہسپتالوں کا رخ کرنا پڑتا ہے جن میں سے اکثر گلی محلوں میں پھرنے والے ان آوارہ کتوں کا شکار بنتے ہیں۔
خصوصاََ گلگت شہر اور غذر میں آوارہ کتوں کی بہتات اور آئے روز شہریوں کو کاٹنے کے واقعات نے اس مسئلے کو اس وقت ایک قومی مسئلہ بنا دیا ہے۔ گلگت شہر کی انتظامیہ آوارہ کتوں کے تدارک کے لیے اقدامات کرنے کے لیے آخر کار جاگ گئی ہیں جو کتوں کے قتل عام کی مہم سے زیادہ کچھ نہیں۔
آوارہ کتوں کو قتل کرنا اس مسئلے کا حل نہیں ہے اور بہت سے ملکوں میں اس اقدام پر سزا دی جاتی ہے۔ کتوں کی بڑھتی تعداد کو قابو کرنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ ان کی ویکسینیشن کر کے ان کی افزائش نسل روک دی جائے۔
گلگت شہر اور غذر میں آئے روز آوارہ کتوں کے کاٹنے سے اب تک سینکڑوں افراد زخمی ہو ئے ہیں ضلع غذر میں رواں سال جون ،جولائی اور اگست میں کتوں کے کاٹنے کے 84 کیسسز رپورٹ ہوئے اور گلگت شہر میں اب تک 60 کے قریب کیسسزسامنے آچکے ہیں اور کئی لوگ جان سے بھی جاچکے ہیں،
آوارہ کتوں کی غیر معمولی افزائش نسل سے اس مسئلہ پر قابو پانا ناممکن ہو چکا ہے۔ اس معاملے پر غیر سرکاری تنظیموں اور حکومت گلگت بلتستان کامشترکہ حکمت عملی تیار کرنا ناگزیر ہوچکا ہے، اب آوارہ کتوں کو مارنے کی بجائے ان کی نسل کو بڑھنے سے روکنے
کے لیے جامع پالیسی تیار کی جا نی چاہیے۔۔
پالیسی کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر نر اور مادہ کتوں میں ویکسین کے ذریعے تولیدی نظام کو غیر فعال کیا جاسکتا ہے۔
اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے سیکرٹری لائیو سٹاک گلگت بلتستان اور بلدیات کے سیکرٹری کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی جائے جس میں جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم جو گلگت بلتستان میں کام کررہی ہیں تو بہت اچھی بات ہے نہیں تو ملک میں کسی بھی تنظیم کو جو جانوروں کے حقوق پر کام کرتی ہو ان کے نمائندوں کو بھی رکن بنایا جاسکتا ہے۔
حکومت کی جانب سے آوارہ کتوں کو مارنے کی بجائے اب ان کی نس بندی یا تولیدی نظام غیر فعال کرنے کی پالیسی پر عمل درآمد کے لیے اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دے دی جائے۔۔
گلگت بلتستان حکومت اس مقصد کے لیے صوبے کے تمام اضلاع میں نر اور مادہ کتوں میں تولیدی نظام غیر فعال کرنے کی مہم شروع کریں جس میں غیر سرکاری تنظیمیں بھی اپنا حصہ ڈال سکتی ہےاور ہر ضلعے میں دو ماہ کے دوران آوارہ کتوں کو پکڑ کر ایک ہزار تک کتوں کو ویکسین لگائی جائے ۔
کتے مار مہم ماضی میں بھی کامیاب نہ ہوسکی کیونکہ اس کے باوجود آوارہ کتوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس مہم سے نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی ملک کا تشخص خراب ہونے کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں ، کتوں کے کاٹنے سے انسانی زندگیوں کو بھی خطرہ ہے۔ تو اس کا حل یہی نکالا گیا ہے کہ انہیں ایسی ویکسین لگائی جائے جس سے تولیدی نظام بھی غیر موثر ہو اور ان کے کاٹنے سے کسی کو نقصان بھی نہ پہنچ سکے۔